سوال کرنے سے پہلے جواب دینے لگا
محبتوں کے مجھے وہ گُلاب دینے لگا
وہ جانتا تھا اسے میں بھُلا نہ پاؤں گی
تو یوں کیا کہ مجھے وہ شراب دینے لگا
میں خود کو سونپ نہ دیتی اسے تو کیا کرتی
وہ جگنوؤں کے عوض ماہتاب دینے لگا
یہ تشنگی مِرے ہونٹوں پہ آ کے کیا پھیلی
تیرا خیال بھی مجھ کو سراب دینے لگا
بچھڑ کے جب سے ملا ناز مُدتوں میں کوئی
تو ہم کو گھر کا تصور عذاب دینے لگا
نگار بانو ناز
No comments:
Post a Comment