زعفرانی کلام
بنے ہو جو رہبر وغیرہ وغیرہ
ہے شہرت کا چکر وغیرہ وغیرہ
میرے ساتھ خود بیٹھ کر پی چکے ہیں
خمار اور ساغر وغیرہ وغیرہ
نئی اِک غزل آج چھیڑی ہے میں نے
قوافی ہیں زر، پر وغیرہ وغیرہ
غلط کہہ رہے ہو کہ ہوں گے برابر
وسیم اور جوہر وغیرہ وغیرہ
گلے ساؤنی رُت میں ملنے لگے ہیں
ندی اور سمندر وغیرہ وغیرہ
جہاں دیکھیے آج ٹکرا رہے ہیں
مؤنث، مذکر وغیرہ وغیرہ
ترنم کے مارے ہوؤں کو کھلاؤ
دہی اور شکّر وغیرہ وغیرہ
سبھی ایک صف میں نظر آ رہے ہیں
گوئیے، سخنور وغیرہ وغیرہ
تمہیں شرم کس بات پر آ رہی ہے
نہ متلی، نہ چکر وغیرہ وغیرہ
صدائیں یہ اٹھیں میرے شعر سن کر
مکرّر، سہ کرر وغیرہ وغیرہ
دکھاتی ہے اب تو نئی شاعرہ بھی
ترنم کا جوہر وغیرہ وغیرہ
ادب میں بہر دور زندہ رہیں گے
جگر اور اصغر وغیرہ وغیرہ
میاں پاپولر توڑ کر پھینک بھی دو
یہ مینا یہ ساغر وغیرہ وغیرہ
پاپولر میرٹھی
No comments:
Post a Comment