مبارک باد پھولوں کے لیے اور خار پر لعنت
ارے مالی اصولوں پر تِرے کردار پر لعنت
جو حاصل ہے وہی کافی ہے بس میرے گزارے کو
کروں میں شکریہ اس پار کا اس پار پر لعنت
وہ جس کی دید سے آنکھوں کی بینائی چلی جائے
تو اس حُسن سراپا کے ہے پھر دیدار پر لعنت
ہمارے زہر نے دیکھو یہاں منظر بدل ڈالے
سپیرے نے کہا اجگر تِری پھنکار پر لعنت
حفاظت کر نہیں سکتا ہے جو اپنے قبیلے کی
کوئی کیسے نہیں بھیجے گا اس سردار پر لعنت
کسی مظلوم کی خاطر اگر یہ اٹھ نہیں سکتی
تو ہے پھر زنگ آلود آپ کی تلوار پر لعنت
نہ تُو ہی ہے مِرے گھر میں نہ ہے تصویر ہی تیری
بھلا کیسے نہ بھیجوں پھر در و دیوار پر لعنت
سمجھداری سے اپنی ریس جیتی ایک کچھوے نے
ارے خرگوش! تیری چال پر، رفتار پر لعنت
اگرچہ سال کے باون دنوں اس سے بچھڑنا ہے
تو پھر ہر اک مہینے کے ہر اک اتوار پر لعنت
اگر لوگوں میں نفرت بانٹنا ہے شاعری تیری
تو اے اجول! تِری محفل تِرے اشعار پر لعنت
اجول وششٹھا
No comments:
Post a Comment