یونہی امید دلاتے ہیں زمانے والے
کب پلٹتے ہیں بھلا چھوڑ کے جانے والے
تُو کبھی دیکھ جھُلستے ہوئے صحرا میں درخت
کیسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
ان سے آتی ہے تِرے لمس کی خوشبو اب بھی
خط نکالے ہوئے بیٹھا ہوں پرانے والے
آ کبھی دیکھ ذرا اُن کی شبوں میں آ کر
کتنا روتے ہیں زمانے کو ہنسانے والے
میرے مالک مِرے آنگن میں دیا تک بھی نہیں
سب ستارے ہیں تِرا عرش سجانے والے
بن کے تصویر جو پلکوں سے جڑے رہتے ہوں
ایسے آنسو بھلا ہوتے ہیں بہانے والے
آج بہزاد! ستارہ ہے نہ جگنو کوئی
رابطے ٹُوٹ گئے اُن سے ملانے والے
بہزاد جاذب
No comments:
Post a Comment