Saturday, 19 October 2024

میں کہ نا موجود ہوں حاضر بھی ہر منظر میں ہوں

 میں کہ نا موجود ہوں، حاضر بھی ہر منظر میں ہوں

بھاگتے پانی میں ساکت ہوں، رواں پتھر میں ہوں

سن رہا ہوں شور میں چھوڑے ہوئے ساحل کی چُپ

میں خود اپنے پار کے اک ساحلی منظر میں ہوں

جی رہا ہوں ان گِنت شکلوں میں، دو شکلیں ہیں یہ

فاختہ کی چونچ میں ہوں، دیدۂ اژدر میں ہوں

ہر نئے پل دائرہ در دائرہ ہیں گام زن

دل میں، دنیا میں، خلا میں، قبر میں، محشر میں ہوں

دور تک بکھرا ہوا ہوں، میں سمٹنے کے لیے

برف کی سِل میں، ہوا میں، ریت میں، اخگر میں ہوں

میرے دشمن کے تعاقب میں ہیں ساری بستیاں

میں بڑے آرام سے سویا ہوا بستر میں ہوں

میرے آنسو بھی ہیں مجھ سے دور اک رومال میں

میں بھی ان سے دور اک رقصِ نشاط آور میں ہوں

پیکروں کے درمیاں رفتارِ لا پیکر بھی ہوں

پیکروں سے دور میں زندہ اسی پیکر میں ہوں


عبدالقیوم صبا

No comments:

Post a Comment