ملا ہی دے گی کبھی موج التباس کہیں
بھٹک رہا ہوں میں اپنے ہی آس پاس کہیں
بھروں سراب کے دریا میں رنگ آب رواں
اتار لوں رگ جاں میں اگر یہ پیاس کہیں
گریز کر مگر اتنا بھی کیا گریز، بھلا
کہ آ نہ جائے تِرا ہجر ہم کو راس کہیں
دل شکستہ کے آثار دیدنی ہیں عطا
پڑے ہیں خواب کہیں تو، اُگی ہے گھاس کہیں
قاضی عطاءالرحمٰن
No comments:
Post a Comment