Thursday 31 October 2024

ملا ہی دے گی کبھی موج التباس کہیں

 ملا ہی دے گی کبھی موج التباس کہیں

بھٹک رہا ہوں میں اپنے ہی آس پاس کہیں

بھروں سراب کے دریا میں رنگ آب رواں

اتار لوں رگ جاں میں اگر یہ پیاس کہیں

گریز کر مگر اتنا بھی کیا گریز، بھلا

کہ آ نہ جائے تِرا ہجر ہم کو راس کہیں

دل شکستہ کے آثار دیدنی ہیں عطا

پڑے ہیں خواب کہیں تو، اُگی ہے گھاس کہیں


قاضی عطاءالرحمٰن

No comments:

Post a Comment