بہت حقیر ہیں ہم یہ گماں بدل ڈالو
اٹھو اور اٹھ کے یہ تفسیر جاں بدل ڈالو
نگاہ رہتی ہو محدود جن کی پھولوں تک
تم ایسے تنگ نظر باغباں بدل ڈالو
فضائے امن اگر زندگی کی قاتل ہو
تو انقلاب سے امن و اماں بدل ڈالو
افق پہ سرخیٔ عزم و عمل جھلک اٹھی
نزول صبح ہے خواب گراں بدل ڈالو
قدیم و کہنہ ادب محترم سہی لیکن
نئی تلاش سے طرز بیاں بدل ڈالو
وقار زیست سے پیدا کرو نئی تاریخ
جو سازگار نہ ہوں سُرخیاں بدل ڈالو
وقار صدیقی
No comments:
Post a Comment