Sunday 20 October 2024

عشق میں برباد ہونے پر پشیمانی تو ہے

 عشق میں برباد ہونے پر پشیمانی تو ہے 

پھر بھی میری قدر و قیمت اس نے پہچانی تو ہے

سانس لینا بھی جہاں مشکل ہے اس ماحول میں 

مجھ کو زندہ دیکھ کر لوگوں کو حیرانی تو ہے

غمگساری میری عادت بن گئی ہے کیا کروں 

دوسروں کا غم اٹھانے میں پریشانی تو ہے

ہاتھ ان سے بھی ملانے کے لیے تیار ہوں 

دشمنوں سے دوستی کی بات نادانی تو ہے

کون سی ایسی دعا ہے جو نہ ہو گی اب قبول 

آنکھ سے آنسو رواں سجدے میں پیشانی تو ہے

شوق ہے پر پیچ راہوں سے گزرنے کا ظفر

ورنہ سیدھا راستہ چلنے میں آسانی تو ہے


ظفر نسیمی 

No comments:

Post a Comment