کہاں رہتا ہوں مت پوچھو مگر کچھ دیر رہنے دو
مِری خانہ بدوشی کو ہی گھر کچھ دیر رہنے دو
اسے مل کر نجانے کیوں لگا رہتا ہے دھڑکا سا
جدائی میں محبت کا اثر کچھ دیر رہنے دو
کہیں بھی اڑ نہیں سکتے یہ بے چارے نہ گھبراؤ
قفس کے باسیوں کے بال و پر کچھ دیر رہنے دو
جنہیں تعمیر کرنے میں ہماری زندگی بیتی
کچھ ان کھنڈرات کے بھی بام و در کچھ دیر رہنے دو
ہماری آخری ہچکی کا منظر دیکھنے والو
ہماری بے بسی کو باخبر کچھ دیر رہنے دو
بہاروں سے ضرور اک دن یہ گلشن کھلکھلائے گا
خزاؤں سے ہمیں سینہ سپر کچھ دیر رہنے دو
مسیحائی طلب کرتے ہیں جو تیرے ہی ہاتھوں سے
قریب اپنے انہیں اے چارہ گر کچھ دیر رہنے دو
عروج علم و فن کی روشنی کی آس تھی شوکت
سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو
غلام فرید شوکت
No comments:
Post a Comment