Friday 18 October 2024

خون کا یہ لوتھڑا میرا باپ تھا

 خون کا یہ لوتھڑا میرا باپ تھا

جو مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا

خون کا یہ لوتھڑا میری ماں ہے

جو برستی گولیوں میں 

مجھے سینے سے لگاتی تھی 

یہ چھوٹی ڈھیری میری بہن ہے

جب میری انگلی تھام کے چلتی تھی

تو مجھے لگتا تھا میں بڑا ہو گیا ہوں

اک یقین تھا اس کے دل میں یہ میری حفاظت کر سکتا ہے

یہ مٹی کی ڈھیری نہیں ہے اس میں تین بدن ہیں

میرا کل اثاثہ تھے اس جنگل میں

جہاں بھیڑیوں کی حکمرانی ہے

اس جنگل کی باڑ کی دوسری طرف مہذب لوگوں کی دنیا ہے

جو اک بلی کے مرنے پر سالوں ملول رہتے ہیں

اک دن میں بھی جب خون کا لوتھڑا بن جاؤں گا

مجھے بھی بے کفن اس مٹی کی ڈھیری میں گاڑ دینا

جہا ں میرا باپ ماں اور ننھی سی بہن مجھ سے پہلے مٹی ہو گئے ہیں

اس پر میرے ہاتھ سے لکھا کتبہ لگانا

یہاں چار بدن دفن ہیں

جو ایک دوسرے کو اتنا ہی چاہتے تھے

جتنا اس جیل اور جنگل سے باہر مہذب بھیڑیے

اپنے باپ ماں اور اور ننھی سی بہن کو چاہتے ہیں

ابرہہ کا لشکر ہماری زمینوں اور روحوں کو روند چکا

عبدالمطلب کے وارث ابابیلوں کا نہیں 

چیلوں اور گِدھوں کا انتظار کر رہے ہیں


محمود ناصر ملک

No comments:

Post a Comment