خون کا یہ لوتھڑا میرا باپ تھا
جو مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا
خون کا یہ لوتھڑا میری ماں ہے
جو برستی گولیوں میں
مجھے سینے سے لگاتی تھی
یہ چھوٹی ڈھیری میری بہن ہے
جب میری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو مجھے لگتا تھا میں بڑا ہو گیا ہوں
اک یقین تھا اس کے دل میں یہ میری حفاظت کر سکتا ہے
یہ مٹی کی ڈھیری نہیں ہے اس میں تین بدن ہیں
میرا کل اثاثہ تھے اس جنگل میں
جہاں بھیڑیوں کی حکمرانی ہے
اس جنگل کی باڑ کی دوسری طرف مہذب لوگوں کی دنیا ہے
جو اک بلی کے مرنے پر سالوں ملول رہتے ہیں
اک دن میں بھی جب خون کا لوتھڑا بن جاؤں گا
مجھے بھی بے کفن اس مٹی کی ڈھیری میں گاڑ دینا
جہا ں میرا باپ ماں اور ننھی سی بہن مجھ سے پہلے مٹی ہو گئے ہیں
اس پر میرے ہاتھ سے لکھا کتبہ لگانا
یہاں چار بدن دفن ہیں
جو ایک دوسرے کو اتنا ہی چاہتے تھے
جتنا اس جیل اور جنگل سے باہر مہذب بھیڑیے
اپنے باپ ماں اور اور ننھی سی بہن کو چاہتے ہیں
ابرہہ کا لشکر ہماری زمینوں اور روحوں کو روند چکا
عبدالمطلب کے وارث ابابیلوں کا نہیں
چیلوں اور گِدھوں کا انتظار کر رہے ہیں
محمود ناصر ملک
No comments:
Post a Comment