چین مل جاتا ہے میرے دل کو اتنا تو اثر ہوتا ہے
جب تیری یادوں کا میرے خیالوں سے گذر ہوتا ہے
رات کٹ جاتی ہے اپنی تیرے حسین خوابوں کے سہارے
رات کب آئےگی ہر دن اسی انتظار میں بسر ہوتا ہے
خدا کرے کہ پتہ چلے یہ کیفیت ایک طرفہ کہ دو طرفہ
کوئی بتائے جو حال ادھر ہوتا ہے کیا ادھر ہوتا ہے
جدائی کے اندھیروں میں جلتے ہیں یادوں کے چراغ
اس طرح سے روشن میرے دل کا سنسان گھر ہوتا ہے
چاہ کر بھی کوئی نہیں ملتا کبھی بن چاہے مل جاتا ہے
اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے اپنا اپنا مقدر ہوتا ہے
ایک نازک سا احساس ہے یہ محبت کانچ کی طرح
ہلکی سی چوٹ لگ جائے تو ٹوٹ جانے کا ڈر ہوتا ہے
سلیم شاید یہ قسمت ہم سے کچھ چاہتی ہے ضرور
جو بار بار اس کے شہر کی جانب ہی سفر ہوتا ہے
سلیم احمد ایوبی
No comments:
Post a Comment