آساں رستوں میں ایسے بھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں
چلتے چلتے اپنے جوتوں سے بھی چھالے پڑ جاتے ہیں
اس کی آس میں جگتی آنکھیں آخر کالی کیوں نہ پڑیں گی
جلتے جلتے رات کی رات چراغ بھی کالے پڑ جاتے ہیں
غم کی دہشت گردی میں بھی دل کو کھولے رکھا ہم نے
ورنہ اس ماحول میں شہروں شہروں تالے پڑ جاتے ہیں
شب کے کالے دامن میں جیوں چاند ستارے آن پڑے ہیں
من کی میلی جھولی میں بھی ایسے اجالے پڑ جاتے ہیں
کتنی بھی پیاری ہو ہر اک شے سے جی اُکتا جاتا ہے
وقت کے ساتھ تو چمکیلے زیور بھی کالے پڑ جاتے ہیں
دل مٹی کا گھر ہی سہی پر روز صفائی کرنا عالم💖
صاف نہ ہوں تو کانچ کے محلوں میں بھی جالے پڑ جاتے ہیں
مکیش عالم
No comments:
Post a Comment