ربط سانسوں کا کہے گی رات باقی
اب تو رُک رُک کر چلے گی رات باقی
کٹ گئی اک رات کرتے بات تجھ سے
کیا پتہ کیسے کٹے گی رات باقی
اک مکمل زندگی کیسے لکھوں میں
دن مکمل، پر رہے گی رات باقی
جُرم تھا سنگین تم خوابوں میں آئے
تب رہائی جب ڈھلے گی رات باقی
بات جب کوئی نہیں تو شور کیا ہے
رات بھر پُوچھا کرے گی رات باقی
وہ مِرے پہلو میں آ کر سو گئے ہیں
اب غزل جیسی چلے گی رات باقی
رُچی درولیہ
No comments:
Post a Comment