Monday, 6 January 2025

چمن میں آتے ہی دشت بلا کو بھول گئے

 چمن میں آتے ہی دشت بلا کو بھُول گئے

شِکم جو سیر ہوا، تم گدا کو بھول گئے

نجات ہم کو مرض سے ملے تو کیسے ملے

کہ چارہ ساز ہماری دوا کو بھول گئے

گِلہ کرے نہ تہی دستئ فقیر کہیں

تم اپنے در کے پرانے گدا کو بھول گئے

جو نام رکھتے تھے اوروں کی بیوفائی پر

غضب ہے آج وہ رسمِ وفا کو بھول گئے

وہ کیسے لالہ و گُل کا مزاج سمجھیں گے

جو اپنے باغ کی آب و ہوا کو بھول گئے

نظر سے گرنے کا شکوہ تو خار کرتے ہیں

مگر وہ اپنی سرشتِ جفا کو بھول گئے

یہ امتیازِ امیر و غریب ہے کہ نہیں؟

کہ حُکم یاد رہا، التجا کو بھول گئے

وہ ناسپاس بھلا کس کے کام آئیں گے

اُتر کے ناؤ سے جو ناخُدا کو بھول گئے

بہت عزیز تھے جو ہمنوا سفر میں تمہیں

سفر کے ختم پہ وہ ہمنوا کو بھول گئے

نہ مستئ سحری ہے، نہ سوزِ شب ساقی

بُتوں کی یاد میں تم تو خُدا کو بھول گئے


ساقی لکھنوی

اولاد علی رضوی

No comments:

Post a Comment