گر مجھ سے خفا ہو تو سزا کیوں نہیں دیتے
مجھ کو بھری محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہوتا ہے فقط جن سے اندھیروں میں اضافہ
تم ایسے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
بیمار تمہارے لبِ دم ہیں ذرا دیکھو
تم کیسے مسیحا ہو، دوا کیوں نہیں دیتے
وہ جنس گراں جس کو وفا کہتی ہے دنیا
بازار میں بکتی ہے تو لا کیوں نہیں دیتے
رہتے ہو رگ جاں سے بھی نزدیک یہ مانا
تم ڈھونڈنے والوں کو پتا کیوں نہیں دیتے
یہ فکر بھی صیاد کو حاصل ہو تو کیوں ہو
خود ہی چمن میں آگ لگا کیوں نہیں دیتے
حامد! تمہیں منزل کا پتا جس نے بتایا
تم ایسے مسافر کو دعا کیوں نہیں دیتے
حامد لطیف
No comments:
Post a Comment