Wednesday, 1 January 2025

جب بھی پھیلے رات کے سائے

 جب بھی پھیلے رات کے سائے

درد کے بادل دل پر چھائے

ہو سُو اپنے لوگ کھڑے تھے

پتھر کس جانب سے آئے

دنیا پتھر دل ہے، لیکن

دل نے پھر بھی خواب سجائے

کیسا منظر ہے ساحل پر

ڈوبنے والے دیکھ نہ پائے

اب بھی وہی عالم ہے دل کا

دھوپ ہے غم کی درد کے سائے

اک اک کر کے تارے ڈوبے

کون کہاں تک آس جگائے

دیکھ کہیں پرویز بندھا دے

دیکھ کہیں دل ڈوب نہ جائے


کرشن پرویز

ہری کرشن تھاپر

No comments:

Post a Comment