Monday, 6 January 2025

پیاس صدیوں کی لیے اپنے لبوں پر آیا

 پیاس صدیوں کی لیے اپنے لبوں پر آیا

ملنے صحراؤں سے آج ایک سمندر آیا

اور پتھر تو مِرے گھر سے ذرا دور کرے

ایک اخلاص کا پتھر تھا جو سر پر آیا

شہر کی بات فصیلوں سے پرے جا پہنچی

اور اس بات کا الزام مِرے سر آیا

وقت بڑھتا ہی گیا، میں نے قدم روک لیے

بات یہ ہے مِرے رستے میں تِرا گھر آیا

بھیڑ میں میں بھی تمناؤں کی گم ہو جاتا

میرے آڑے مِری تنہائی کا پیکر آیا

ہیں جو ناواقف سائشتگئ مے خانہ

ان کے حصے مئے ناب کا ساغر آیا

میں نے بھی ہاتھ اٹھائے تھے دعاؤں کے لیے

میرے ہاتھوں میں نہ پھول آئے، نہ پتھر آیا

چل سکا غم پہ نہ کچھ زور کسی کا خسرو

اس کو آنا تھا جو دل میں سو برابر آیا


امیر احمد خسرو

No comments:

Post a Comment