پیاس صدیوں کی لیے اپنے لبوں پر آیا
ملنے صحراؤں سے آج ایک سمندر آیا
اور پتھر تو مِرے گھر سے ذرا دور کرے
ایک اخلاص کا پتھر تھا جو سر پر آیا
شہر کی بات فصیلوں سے پرے جا پہنچی
اور اس بات کا الزام مِرے سر آیا
وقت بڑھتا ہی گیا، میں نے قدم روک لیے
بات یہ ہے مِرے رستے میں تِرا گھر آیا
بھیڑ میں میں بھی تمناؤں کی گم ہو جاتا
میرے آڑے مِری تنہائی کا پیکر آیا
ہیں جو ناواقف سائشتگئ مے خانہ
ان کے حصے مئے ناب کا ساغر آیا
میں نے بھی ہاتھ اٹھائے تھے دعاؤں کے لیے
میرے ہاتھوں میں نہ پھول آئے، نہ پتھر آیا
چل سکا غم پہ نہ کچھ زور کسی کا خسرو
اس کو آنا تھا جو دل میں سو برابر آیا
امیر احمد خسرو
No comments:
Post a Comment