Monday, 6 January 2025

آئینہ ساز ہاتھوں کا آئینہ صاف کر

 آئینہ ساز ہاتھوں کا آئینہ صاف کر

میں ہوں پسِ غبار مِرا انکشاف کر

کیا کچھ نہیں اُداس گھروں میں تِرے لیے

جنگل کو جانے والے! کبھی اعتکاف کر

جس کا ہُوا ہے قتل، وہ اک آفتاب تھا

سرزد ہوئی ہے تجھ سے خطا اعتراف کر

اندازہ کیا لگے کہ سبھی خُوش لباس ہیں

گر دیکھنا ہے میل دِلوں کا طواف کر

دے گی تجھے نہ راہ یہ چٹان عُمر بھر

یا پھیر لے بہاؤ کا رُخ یا شگاف کر


نور پیکر

No comments:

Post a Comment