Sunday, 5 January 2025

کہاں جاتے ہو یوں پہلو بدل کے

 کہاں جاتے ہو یوں پہلو بدل کے

ابھی کچھ شعر باقی ہیں غزل کے

جہاں لکھا تھا میں نے لفظ الفت 

وہیں پر آ گرے آنسو پھسل کے

یہ میرا جسم جو مہکا ہوا ہے

تِری محفل سے آیا ہوں نکل کے

فقط تم ہی نظر آتے ہو مجھ کو

بہت دیکھا ہے ان آنکھوں کو مل کے

ضرورت آج ہے کاشف تمہاری 

کرو وعدے نہ تم ملنے کے کل کے 


کاشف اختر

No comments:

Post a Comment