تیرا بیمار تِرے در سے بھی خالی جائے
کس سے پھر دردِ محبت کی دوا لی جائے
دل کے ایزل سے ہے لِپٹا ہوا کاغذ کورا
کیوں نہ پھر آپ کی تصوہر بنا لی جائے
توپ بھی، تیر بھی، تلوار بھی رکھ دیں آؤ
دل کی گِرتی ہوئی دیوار اُٹھا لی جائے
چھائی ہے مست گھٹا، آؤ اُچھالیں ساغر
آج موسم کی کوئی بات نہ ٹالی جائے
حالِ دل ان کے حضور آج کہیں گے حامد
💢آج پابندئ آداب اُٹھا لی جائے💢
حامد لطیف
No comments:
Post a Comment