Sunday, 5 January 2025

کوئی حبیب کوئی مہرباں تو ہے ہی نہیں

 کوئی حبیب کوئی مہرباں تو ہے ہی نہیں

ہمارے سر پہ کوئی آسماں تو ہے ہی نہیں

جو ایک عکس حقیقت ہے ٹوٹ جائے اگر

پتہ چلے کہ جہاں میں جہاں تو ہے ہی نہیں

میں ایک عمر سے رب کی تلاش کرتا ہوں

جہاں پہ اس کا نشاں تھا وہاں تو ہے ہی نہیں

ہر ایک ظلم کو چپ چاپ سہ رہے ہیں سبھی

معاشرے میں کوئی با زباں تو ہے ہی نہیں

یہ اشک غم کا فسانہ سنا کے مانے گا

کسی بھی طور مِرا رازداں تو ہے ہی نہیں

کرو گے عشق تو جانو گے غیب کو کافر

ہر ایک راز ہے ظاہر نہاں تو ہے ہی نہیں


جگجیت کافر

No comments:

Post a Comment