کوئی حبیب کوئی مہرباں تو ہے ہی نہیں
ہمارے سر پہ کوئی آسماں تو ہے ہی نہیں
جو ایک عکس حقیقت ہے ٹوٹ جائے اگر
پتہ چلے کہ جہاں میں جہاں تو ہے ہی نہیں
میں ایک عمر سے رب کی تلاش کرتا ہوں
جہاں پہ اس کا نشاں تھا وہاں تو ہے ہی نہیں
ہر ایک ظلم کو چپ چاپ سہ رہے ہیں سبھی
معاشرے میں کوئی با زباں تو ہے ہی نہیں
یہ اشک غم کا فسانہ سنا کے مانے گا
کسی بھی طور مِرا رازداں تو ہے ہی نہیں
کرو گے عشق تو جانو گے غیب کو کافر
ہر ایک راز ہے ظاہر نہاں تو ہے ہی نہیں
جگجیت کافر
No comments:
Post a Comment