Saturday, 4 January 2025

ڈس رہی ہیں رات دن اب تنہائیاں ہماری

 ڈس رہی ہیں رات دن اب تنہائیاں ہماری

بوجھ لگ رہی ہیں ہمیں پرچھائیاں ہماری

کانوں پہ ہاتھ رکھ کے دور بھاگ رہے ہیں 

ہنسی اڑا رہی ہیں بج بی کے شہنائیاں ہماری 

کسی کا قصور کیا ہے ہم خود ہی سبب ہیں 

برباد کرگئی ہیں ہمیں یہ لاہرواہیاں ہماری

ہر بار غلط ہی راستہ چن کے ہم چلے ہیں 

رلا رہی ہیں اب ہمیں یہ گمراہیاں ہماری

یہ آنسو تو بس سلیم اوپر کا طوفان ہیں 

کوئی نہ جان پائے گا کبھی گہرائیاں ہماری

ابھی نکلے ہیں سمندر سے بڑی مشکل کے بعد 

دیکھا تو منتظر تھیں بہت کھائیاں ہماری 

کم ظرفوں کے ساتھ ہم نے کیوں نیکیاں کیں

برائیاں بن گئیں ہیں سب بھلائیاں ہماری 

اس دور جفا میں ہم وفا کی بات کرتے ہیں 

دنیا میں ہو رہی ہیں جگ ہنسائیاں ہماری 

شاید ابھی قبولیت کا وقت نہیں آیا ہے 

آسمان سے ٹکرا کے رک گئیں ہیں دہائیاں ہماری

یہ آنسو یہ درد یہ زخم یہ آہیں یہ سسکیاں 

سلیم یہ ہیں عمر بھر کی سب کمائیاں ہماری


سلیم احمد ایوبی

No comments:

Post a Comment