ڈس رہی ہیں رات دن اب تنہائیاں ہماری
بوجھ لگ رہی ہیں ہمیں پرچھائیاں ہماری
کانوں پہ ہاتھ رکھ کے دور بھاگ رہے ہیں
ہنسی اڑا رہی ہیں بج بی کے شہنائیاں ہماری
کسی کا قصور کیا ہے ہم خود ہی سبب ہیں
برباد کرگئی ہیں ہمیں یہ لاہرواہیاں ہماری
ہر بار غلط ہی راستہ چن کے ہم چلے ہیں
رلا رہی ہیں اب ہمیں یہ گمراہیاں ہماری
یہ آنسو تو بس سلیم اوپر کا طوفان ہیں
کوئی نہ جان پائے گا کبھی گہرائیاں ہماری
ابھی نکلے ہیں سمندر سے بڑی مشکل کے بعد
دیکھا تو منتظر تھیں بہت کھائیاں ہماری
کم ظرفوں کے ساتھ ہم نے کیوں نیکیاں کیں
برائیاں بن گئیں ہیں سب بھلائیاں ہماری
اس دور جفا میں ہم وفا کی بات کرتے ہیں
دنیا میں ہو رہی ہیں جگ ہنسائیاں ہماری
شاید ابھی قبولیت کا وقت نہیں آیا ہے
آسمان سے ٹکرا کے رک گئیں ہیں دہائیاں ہماری
یہ آنسو یہ درد یہ زخم یہ آہیں یہ سسکیاں
سلیم یہ ہیں عمر بھر کی سب کمائیاں ہماری
سلیم احمد ایوبی
No comments:
Post a Comment