Saturday, 4 January 2025

ہر چند کہ ہم مورد ہر قہر و غضب ہیں

 ہر چند کہ ہم موردِ ہر قہر و غضب ہیں

باطل کے پرستار نہ پہلے تھے نہ اب ہیں

وہ لوگ کہاں اب جنہیں کہتے تھے مجاہد

اس دور ترقی میں سب آرام طلب ہیں

فرصت جو ملے غم سے تو مسمار ہی کر دوں

جتنے بھی سر راہ یہ ایوان طرب ہیں

کیا جانیے کس نشۂ غفلت میں ہیں سرشار

مدہوش نہیں ہم مگر ہشیار بھی کب ہیں

رہبر ہیں کہ رہزن ہیں سمجھ میں نہیں آتا

ہمدرد نہیں ایک بھی ہمراہ تو سب ہیں

ایمائے نظر ہو تو دل و جاں بھی تصدق

ہم وہ نہیں جو منتظر جنبش لب ہیں

دل ڈوبنے لگتا ہے تصور سے بھی جن کے

ایسے بھی مقامات سر راہ طلب ہیں

دل چیر گئی جن کی فغان شب تاریک

اب رنگ سحر دیکھ کے کیوں مہر بلب ہیں

راہی سے ملے جب بھی یہ محسوس کیا ہے

اس شخص کے جذبات و خیالات عجب ہیں


مصطفیٰ راہی

No comments:

Post a Comment