Friday, 3 January 2025

محفل عشق کا دستور نرالا دیکھا

 محفل عشق کا دستور نرالا دیکھا

غم سے معمور ہر اک چاہنے والا دیکھا

محل امید کا برسوں میں ہوا تھا تعمیر

اس کو پل بھر میں ہی ہم نے تہ و بالا دیکھا

دشمنوں نے میری جانب سے زباں کھولی تھی

اپنے احباب کے ہونٹوں ہی پہ تالا دیکھا

ایک ہیں آپ اجالوں کو اندھیرا سمجھے

ایک ہم ہیں کہ اندھیروں میں اجالا دیکھا

رفعتیں بھاگ کے آئی ہیں قدم لینے کو

جب بھی جذبات کی موجوں میں اچھالا دیکھا

بس ہر اک ذرے میں دیکھا ہے اسی کا پرتو

ورنہ ہم نے کبھی مسجد نہ شوالہ دیکھا

مسکراہٹ کی چمک رخ پہ سجا کر گوہر

تلخئ زیست کو کس طور سے تالا دیکھا


کلدیپ گوہر

No comments:

Post a Comment