محفل عشق کا دستور نرالا دیکھا
غم سے معمور ہر اک چاہنے والا دیکھا
محل امید کا برسوں میں ہوا تھا تعمیر
اس کو پل بھر میں ہی ہم نے تہ و بالا دیکھا
دشمنوں نے میری جانب سے زباں کھولی تھی
اپنے احباب کے ہونٹوں ہی پہ تالا دیکھا
ایک ہیں آپ اجالوں کو اندھیرا سمجھے
ایک ہم ہیں کہ اندھیروں میں اجالا دیکھا
رفعتیں بھاگ کے آئی ہیں قدم لینے کو
جب بھی جذبات کی موجوں میں اچھالا دیکھا
بس ہر اک ذرے میں دیکھا ہے اسی کا پرتو
ورنہ ہم نے کبھی مسجد نہ شوالہ دیکھا
مسکراہٹ کی چمک رخ پہ سجا کر گوہر
تلخئ زیست کو کس طور سے تالا دیکھا
کلدیپ گوہر
No comments:
Post a Comment