ایسی صورت میں بھی اب اشک رواں ہوتا ہے
چوٹ لگتی ہے کہاں، درد کہاں ہوتا ہے
تیرگی شب کی یوں دیتی ہے اذیت مجھ کو
دن ابھرتے ہوئے مرنے کا گماں ہوتا ہے
آپ کے ہونے سے یہ راز چمن ہم پہ کھلا
پھول کھلتا ہے تو خوشبو میں جواں ہوتا ہے
جھومتا پھرتا ہے گھجروں کے میاں میں گویا
ایک کنگن جو کلائی کی زباں ہوتا ہے
جن کو ملتی ہے یہ خیرات محبت صائم
ان کے ماتھے پہ مقدر کا نشاں ہوتا ہے
عابد حسین صائم
No comments:
Post a Comment