Tuesday, 5 August 2025

دل کی تسکین کی دوا کیا ہے

 دل کی تسکین کی دوا کیا ہے

دوستوں سے بھلا چھپا کیا ہے

یہ لہو تو نہیں مرے محبوب

تیری رگ رگ میں دوڑتا کیا ہے

ہجر کے دن وصال کی راتیں

چاہنے والے چاہتا کیا ہے

عشق تنہائی شاعری سگریٹ

اور اس کے سوا بچا کیا ہے

ان کے در سے اٹھا تو بھول گیا

گھر کو جانے کا راستہ کیا ہے

سر کو سجدے میں رکھ دیا جائے

عشق کا اور ترجمہ کیا ہے

وہ جو مشہور کر رہا ہے مجھے

میرے بارے میں جانتا کیا ہے

راستہ جب نہ روک پایا ستم

پھر یے تلووں کا آبلہ کیا ہے

جسم دو ایک ہو گئے کہہ کر

عاشقی میں ترا مرا کیا ہے

رک گئے کہتے کہتے اس دل میں

اس نے جس وقت یے کہا کیا ہے

خیر اچھا ہوا کے اے ہانی

وہ نہ سمجھے کے ماجرا کیا ہے


ہانی بریلوی

No comments:

Post a Comment