دل کی تسکین کی دوا کیا ہے
دوستوں سے بھلا چھپا کیا ہے
یہ لہو تو نہیں مرے محبوب
تیری رگ رگ میں دوڑتا کیا ہے
ہجر کے دن وصال کی راتیں
چاہنے والے چاہتا کیا ہے
عشق تنہائی شاعری سگریٹ
اور اس کے سوا بچا کیا ہے
ان کے در سے اٹھا تو بھول گیا
گھر کو جانے کا راستہ کیا ہے
سر کو سجدے میں رکھ دیا جائے
عشق کا اور ترجمہ کیا ہے
وہ جو مشہور کر رہا ہے مجھے
میرے بارے میں جانتا کیا ہے
راستہ جب نہ روک پایا ستم
پھر یے تلووں کا آبلہ کیا ہے
جسم دو ایک ہو گئے کہہ کر
عاشقی میں ترا مرا کیا ہے
رک گئے کہتے کہتے اس دل میں
اس نے جس وقت یے کہا کیا ہے
خیر اچھا ہوا کے اے ہانی
وہ نہ سمجھے کے ماجرا کیا ہے
ہانی بریلوی
No comments:
Post a Comment