عمر گزری کہ تجھے ہم نے بھلا رکھا ہے
اپنے ہر جاننے والے کو بتا رکھا ہے
نہ سہی وصل کوئی جسم تو ہو پہلو میں
مجھ کو تنہائی نے دیوانہ بنا رکھا ہے
ہیں نشہ کے سبھی سامان مرے کمرے میں
اور ایک طاق پہ زاہد کا خدا رکھا ہے
کل ملا کر کوئی چوبیس ہیں غم الفت کے
ان میں اک غم ہے جسے سب سے جدا رکھا ہے
جس کی لو دیکھ کے بھٹکے ہوئے آ جاتے تھے
کچھ دنوں سے وہ دیا ہم نے بجھا رکھا ہے
زندگی کا مری ہر باب عیاں دنیا پر
میں نے اس طرح ہر اک عیب چھپا رکھا ہے
رافعہ زینب
No comments:
Post a Comment