Tuesday 15 November 2016

پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں

پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں
تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں
یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں
ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں
وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں
پھر کہہ کے خلیل اللہ اسے الفت سے پکارا کرتے ہیں
وہ عشرتِ ساحل کیا جانیں، گزرے نہ جو موجِ طوفاں سے
وہ لطفِ مسرت کیا جانیں، جو غم سے کنارا کرتے ہیں
فتنہ کوئی تازہ ابھرے گا، طوفان کھڑا ہو گا کوئی
حالات اشارا کرتے ہیں اور صاف اشارا کرتے ہیں
دل خون ہوا ہو گا یونہی، پھر ڈوب گیا ہو گا یونہی
ہم ڈوبتے سورج کا یونہی ہر روز نظارہ کرتے ہیں
اے دیکھنے والے! دیکھ ذرا یہ فرقِ مزاجِ شمع و گل
وہ رو کے گزارے عمر اپنی، یہ ہنس کے گزارا کرتے ہیں

نظر لکھنوی​
(محمد عبدالحمید صدیقی)

No comments:

Post a Comment