پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں
تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں
یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں
ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں
وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں
وہ عشرتِ ساحل کیا جانیں، گزرے نہ جو موجِ طوفاں سے
وہ لطفِ مسرت کیا جانیں، جو غم سے کنارا کرتے ہیں
فتنہ کوئی تازہ ابھرے گا، طوفان کھڑا ہو گا کوئی
حالات اشارا کرتے ہیں اور صاف اشارا کرتے ہیں
دل خون ہوا ہو گا یونہی، پھر ڈوب گیا ہو گا یونہی
ہم ڈوبتے سورج کا یونہی ہر روز نظارہ کرتے ہیں
اے دیکھنے والے! دیکھ ذرا یہ فرقِ مزاجِ شمع و گل
وہ رو کے گزارے عمر اپنی، یہ ہنس کے گزارا کرتے ہیں
نظر لکھنوی
(محمد عبدالحمید صدیقی)
No comments:
Post a Comment