فطرت ایک مفلس کی نظر میں
فطرت کے پجاری کچھ تو بتا، کیا حسن ہے ان گلزاروں میں
ہے کون سی رعنائی آخر، ان پھولوں میں ان خاروں میں
وہ خواہ سلگتے ہوں شب بھر، وہ خواہ چمکتے ہوں شب بھر
میں نے بھی تو دیکھا ہے اکژ، کیا بات نئی ہے تاروں میں
اس چاند کی ٹھنڈی کرنوں سے، مجھ کو تو سکوں ہوتا ہی نہیں
یہ چپ چپ نرگس کی کلیاں، کیا جانے کیسی کلیاں ہیں
جو کھلتی ہیں جو ہنستی ہیں، اور پھر بھی ہیں بیماروں میں
یہ لال شفق، یہ لالہ و گل، اک چنگاری بھی جن میں نہیں
شعلے بھی نہیں، گرمی بھی نہیں، ہیں تیرے آتش زاروں میں
اس وقت کہاں تو ہوتا ہے، جب موسمِ گرما کا سورج
دوزخ کی تپش بھر دیتا ہے، دریاؤں میں کہساروں میں
جاڑے کی بھیانک راتوں میں، وہ سرد ہواؤں کی تیزی
ہاں وہ تیزی وہ بے مہری، جو ہوتی ہے تلواروں میں
دریا کے تلاطم کا منظر، ہاں تجھ کو مبارک ہو لیکن
اک ٹوٹی پھوٹی کشتی بھی، چکراتی ہے منجدھاروں میں
کوئل کے رسیلے گیت سنے، لیکن یہ کبھی سوچا تُو نے
ہیں اُلجھے ہوۓ نغمے کتنے، اک ساز کے ٹوٹے تاروں میں
بادل کی گرج، بجلی کی چمک، بارش میں وہ تیزی تیروں کی
میں ٹھٹھرا سمٹا سڑکوں پر، تو جام بلب مۓ خواروں میں
رکھا ہے بھلا کیا ان کے سوا، ان راحتِ جاں مہ پاروں میں
اک روٹی کا ٹکڑا جو کہیں، مل جاۓ مجھے بازاروں میں
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں، جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے، اس وقت یہ شبنم موتی ہے
معین احسن جذبی
No comments:
Post a Comment