داغِ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا
میں نے چاہا بھی مگر تم کو بھلایا نہ گیا
عمر بھر یوں تو زمانے کے مصائب جھیلے
تیری نظروں کا مگر بار اٹھایا نہ گیا
روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے
پھول چننا بھی عبث، سیرِ بہاراں بھی فضول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
اس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں
ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا
تھی حقیقت میں وہی منزلِ مقصد جذبیؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
معین احسن جذبی
No comments:
Post a Comment