یہ کہہ گیا بت ناآشنا سنا کے مجھے
کہ آپ میں نہیں رہتا ہے کوئی پا کے مجھے
نقاب کہتی ہے میں پردۂ قیامت ہوں
اگر یقین نہ ہو، دیکھ لو اٹھا کے مجھے
ملوں گا خاک میں آنسو کی طرح یاد رہے
ملو نہ آنکھ کہیں آنکھ سے گرا کے مجھے
ادا سے کھینچ رہا ہے کماں وہ تیر انداز
قضا پکار رہی ہے ذرا بچا کے مجھے
تمہارے واسطے اس دل کا مول ہی کیا ہے
ادا سے دیکھ لو اک دن نظر اٹھا کے مجھے
تِرے حساب میں تیری قبا کا دامن ہوں
کہ جب مزاج میں آیا چلا لٹا کے مجھے
میں ڈر رہا ہوں تمہاری نشیلی آنکھوں سے
کہ لوٹ لیں نہ کسی روز کچھ پلا کے مجھے
بلند نام نہ ہو گا ستم شعاری سے
تم آسمان نہ ہو جاؤ گے ستا کے مجھے
بتوں کو تاکتے گزری ہے شرم آئے گی
جلیلؔ لے نہ چلو سامنے خدا کے مجھے
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment