ہوئیں بارشیں کرم کی اسی وقت آسماں سے
جو لپٹ کے رو دئیے ہم تِرے سنگِ آستاں سے
جو بیاں ہو ان سے قاصد تو ذرا سنبھل سنبھل کر
انہیں اضطراب ہو گا، میرے غم کی داستاں سے
یہ فریب ہے مثالی، کہ ہیں دونوں ہاتھ خالی
مجھے مل سکا نہ کچھ بھی میری عمرِ رائیگاں سے
مجھے ساتھ ساتھ رکھا، اسی دن کے واسطے کیا
نہ چھڑائیں اب وہ دامن، میرے دستِ ناتواں سے
میری بات تُو جو مانے، تو یہ چھوڑ دے بہانے
جو نہیں سے بات بگڑی، وہ سنوار ایک ہاں سے
ابھی حوصلے نکالو، ابھی اور کچھ ستا لو
تمہیں پھر پتہ چلے گا، جو ہم اٹھ گئے جہاں سے
اسے جانتی ہے دنیا،۔ اسے مانتا ہے عالم
جو نصیر کو لگن ہے تیرے سنگِ آستاں سے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment