Monday, 2 November 2020

اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے

 اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے

عاشق ہیں ہم اس نرگس رعنا کے جبھی سے

کرنے کو ہیں دور آج تو تو یہ روگ ہی جی سے

اب رکھیں گے ہم پیار نہ تم سے نہ کسی سے

احباب سے رکھتا ہوں کچھ امید شرافت

رہتے ہیں خفا مجھ سے بہت لوگ اسی سے

کہتا ہوں اسے میں تو خصوصیت پنہاں

کچھ تم کو شکایت ہے کسی سے تو مجھی سے

اشعار نہیں ہیں یہ مِری روح کی ہے پیاس

جاری ہوئے سرچشمے مِری تشنہ لبی سے

آنسو کو مِرے کھیل تماشا نہ سمجھنا

کٹ جاتا ہے پتھر اسی ہیرے کی کنی سے

یاد لب جاناں ہے چراغ دل رنجور

روشن ہے یہ گھر آج اسی لعل یمنی سے

افلاک کی محراب ہے آئی ہوئی انگڑائی

بے کیف کچھ آفاق کی اعضا شکنی سے

کچھ زیر لب الفاظ کھنکتے ہیں فضا میں

گونجی ہوئی ہے بزم تِری کم سخنی سے

آج انجمن عشق نہیں انجمن عشق

کس درجہ کمی بزم میں ہے تیری کمی سے

اس وادئ ویراں میں ہے سر چشمۂ دل بھی

ہستی مِری سیراب ہے آنکھوں کی نمی سے

خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی

آج آئی تِری یاد اس آہستہ روی سے

وہ ڈھونڈھنے نکلی ہے تِری نکہت گیسو

اک روز ملا تھا میں نسیم سحری سے

سب کچھ وہ دلا دے مجھے سب کچھ وہ بنا دے

اے دوست نہیں دور تِری کم نگہی سے

میعاد دوام و ابد اک نیند ہے اس کی

ہم منتہئ جلوۂ جاناں ہیں ابھی سے

اک دل کے سوا پاس ہمارے نہیں کچھ بھی

جو کام ہو لے لیتے ہیں ہم لوگ اسی سے

معلوم ہوا اور ہے اک عالم اسرار

آئینۂ ہستی کی پریشاں نظری سے

اس سے تو کہیں بیٹھ رہے توڑ کے اب پاؤں

مل جائے نجات عشق کو اس دربدری سے

رہتا ہوں فراق اس لیے وارفتہ کہ دنیا

کچھ ہوش میں آ جائے مِری بے خبری سے


فراق گھورکھپوری

No comments:

Post a Comment