Monday, 2 November 2020

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

 چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

کئی لذتوں کا ستم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہیں

مرا ذہن ہے وہ صنم لیے

وہی ریگزار ہے سامنے

وہی ریگزار کہ جس میں عشق کے آئینے

کسی دست غیب سے ٹوٹ کر

رہِ تارِ جاں میں بکھر گئے

ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے

وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں

ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے

چلا آ رہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

یہ برہنگی عظیم تیری دکھاؤں میں

(جو گدا گری کا بہانہ ہے)

کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں

میں سنوں، فسانہ سمندروں کا سناؤں میں

(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)

یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑہیں دست و پا، نہ کھلے زباں

نہ خیال ہی میں رہے تواں

تو وہ ریگزار کہ جیسے رہزنِ پیر ہو

جسے تاب راہزنی نہ ہو

کہ مثالِ طائرِ نیم جاں

جسے یاد بال و پری نہ ہو

کسی راہرو سے امید رحم و کرم لیے

میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے

چلا آ رہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے

ہے ابھی انہی کی طرف مرا درِ دل کھلا

کہ نسیمِ خندہ کو رہ ملے

مری تیرگی کو نِگہ ملے

وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے یاد ہے

ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے

مرے پاؤں چھو کے نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی

وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئی

وہ جزیرے جن کے افق ہجوم سحر سے دید بہار تھے

وہ پرندے اپنی طلب میں جو سرکار تھے

وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں

ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں

ابھی ذھن ہے وہ صنم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہے

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے جمال سے

صدف و کنار کا غم لیے


ن م راشد

No comments:

Post a Comment