دعا قبول ہوئی تھی کہ سانس مرنے لگی
دِیا سسکنے لگا تو ہوا بھی چلنے لگی
میں شور سنتی رہی دل کے ٹھہرے پانی کا
تمہاری چپ مجھے دریاؤں جیسی لگنے لگی
سو دل سے ہار گیا ضبط میرا صدیوں کا
ذرا جو ہاتھ وہ جوڑا تو میں پگھلنے لگی
ترے حوالے سے یہ پھول جانتے ہیں مجھے
مرے نصیب پہ خوشبو بھی رشک کرنے لگی
تمہارا ہاتھ چھڑانے کا ذکر چل پڑا تھا
ابھی تھمی ہی تھی بارش کہ پھر برسنے لگی
میں اس کو ڈھونڈنے جانے لگی تھی صحرا میں
سو مجھ کو خواب میں بھی ریت ریت دِکھنے لگی
کہانی سات ہی رنگوں پہ مشتمل تھی، مگر
میں اس میں آٹھواں رنگ آگہی کا بھرنے لگی
اقراء عافیہ
No comments:
Post a Comment