Sunday, 8 November 2020

نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہو گی

 درخت زرد


نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہو گی

وہ کن خوابوں سے جانے آشنا، نا آشنا ہو گی

تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے

تمہیں کیسے گماں ہوں گے، تمہیں کیسے گلے ہوں گے

تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو

تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو

نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہو گی

نہ جانے اس کی کیا بایستگی شائستگی ہو گی

اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہو گے

نہ جانے تم نے کتنی غلط اردو لکھی ہو گی

یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے

یہ صنف نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے

وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں

گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں

گماں یہ ہے تمہاری بھی رسائی نا رسائی ہو

وہ آئی ہو تمہارے پاس لیکن نہ آ پائی ہو

ہدف ہوں گے تمہارا کون، تم کس کے ہدف ہو گے

نہ جانے وقت کے پیکار میں تم کس طرف ہو گے

ہے رن یہ زندگی، اک رن جو برپا لمحہ لمحہ ہے

ہمیں اس رن میں جو بھی ہو، کسی جانب تو ہونا ہے

سو، ہم بھی اس نفس تک ہیں سپاہی ایک لشکر کے

ہزاروں سال سے جیتے چلے آئے ہیں مر مر کے

شہود اک فن ہے اور میری عداوت بے فنوں سے ہے

مری پیکار ازل سے سب تناسب دشمنوں سے ہے

نشہ چڑھنے لگا ہے اور چڑھنا چاہیے بھی تھا

عبث کا نرخ تو اس وقت بڑھنا چاہیے بھی تھا

عجب بے ماجرا، بے طور بیزارانہ حالت ہے

وجود اک وہم ہے اور وہم ہی شاید حقیقت ہے

سرگفتار کیا تھا؟ سر تھا اور گفتار ہی کا تھا

غرض جو حال تھا وہ نفس کے بازار ہی کا تھا

تمہاری ارجمند امی کو میں بھولا بہت دن میں

میں ان کی رنگ کی تسکین سے نمٹا بہت دن میں

وہی تو ہیں جنہوں نے مجھے پہیم رنگ تھکوایا

وہ کس رگ کا لہو ہے جو میاں میں نے نہیں تھوکا

لہو اور تھوکنا اس کا، ہے کاروبار بھی میرا

یہی ہے ساکھ بھی میری یہی معیار بھی میرا

میں وہ ہوں جس نے اپنے خون سے موسم کھلائے ہیں

نجانے وقت کے کتنے ہی عالم آزامائے ہیں

میں اک تاریخ ہوں اور میری جانے کتنی فصیلیں ہیں

مری کتنی ہی فرعیں ہیں، مری کتنی ہی اصیلیں ہیں

حوادث ماجرا ہی ہم رہے اک زمانے سے

شداید سانحہ ہی ہم رہے ہیں اک زمانے سے

لڑائی کے لیے میدان اور لشکر نہیں لازم

بس اک احساس لازم ہے کہ ہم بعدین ہیں دونوں

کہ نفی عینِ عین و سر بہ سر ضدین ہیں دونوں

سنو زریون! تم عین اعیانِ حقیقت ہو

نظر سے دور منظر کا سروسامانِ ثروت ہو

ہماری عمر کا قصہ حساب اندوزِ آنی ہے

زمانی زد میں ظن کی اک گمانِ لازمانی ہے

فنا ہر آن باقی ہے بقا ہر آن فانی ہے

کہانی کہنے والا اک کہانی کی کہانی ہے

کہانی سننے والے جو بھی ہیں وہ خود کہانی ہیں

یقیں شاید کہیں ٹھہرے گماں جتنے ہیں، فانی ہیں

پیاپے یہ گزارش یہ گماں اور گلے کیسے

صلہ سوزی تو میرا فن ہے، پھر اس کے صلے کیسے

تو میں کیا کہہ رہا تھا یعنی کی خثح سہہ رہا تھا میں

اماں، ہاں میز پر یا میز پر سے بہہ رہا تھا میں

رکو، میں بے سروپا اپنے سر سے بھاگ نکلا ہوں

مرا میں لاگ میں تھا اس سے میں بے لاگ نکلا ہوں

الہ یا ایھا الہ بجد! ذرا یعنی ذرا ٹھیرو

کہیں اپنے سوا یعنی کہیں اپنے سوا ٹھیرو

تم اس میں اک ردیف ایک قافیہ ٹھیرو

ردیف و قافیہ کیا ہیں شکست ناروا کیا ہے

شکست ناروا نے مجھے پارا پارا کر ڈالا

انا کو مری بے اندازہ تر بے چارہ کر ڈالا

میں اپنے آپ میں ہارا ہوں اور خوارانہ ہارا ہوں

جگر چاکانہ ہارا ہوں، دل افگارانہ ہارا ہوں

جسے فن کہتے آئے ہیں وہ ہے خون جگر اپنا

مگر خون جگر کیا ہے وہ ہے قتال تر اپنا

نہ جانے جبر ہے حالت کے حالت جبر ہے یعنی

کسی بھی بات کے معنی جو ہیں ان کے ہیں کیا معنی

وجود اک جبر ہے میرا، عدم اوقات ہے میری

جو میری ذات ہرگز بھی نہیں وہ ذات ہے میری

میں روز و شبِ نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں

میں اپنا آدمی ہرگز نہیں، لوح و قلم کا ہوں

نہیں معلوم زریون! اب تمہاری عمر کیا ہو گی

یہی ہے دل کا مضمون اب تمہاری عمر کیا ہو گی

ہمارے درمیان اب اک بے جا تر زمانہ ہے

لبِ تشنہ پہ اک زہرِ حقیقت کا فسانہ ہے

عجب فرصت میسر آئی ہے دل و جان رشتے کو

نہ دل کو آزمانا ہے نہ جان کو آزمانا ہے

کہاں اب جادہ خرم میں سرسبزانہ جانا ہے

کہوں تو کیا کہوں میرا یہ زخم جاودانہ ہے

وہی دل کی حقیقت جو کبھی جاں تھی وہ اب آخر

فسانہ در فسانہ در فسانہ در فسانہ ہے

ہمارا باہمی رشتہ جو حاصل تر تھا رشتوں کا

ہمارا طورِ بے زاری بھی کتنا والہانہ ہے

کسی کا نام لکھا ہے میری ساری بیاضوں پر

میں ہمت کر رہا ہوں یعنی اب اس کو مٹانا ہے

ہنسی آتی ہے اب وہ کس قدر ناواجبانہ ہے

یہ اک شامِ عذابِ بے سروکارانہ حالت ہے

ہوئے جانے کی حالت میں ہوں بس فرصت ہی فرصت ہے

نہیں معلوم تم اس وقت کس معلوم میں ہو گے

نہ جانے کون سے معنی میں کس مفہوم میں ہو گے

میں تھا مفہوم، نامفہوم مییں گم ہو چکا ہوں میں

میں تھا معلوم، نامعلوم میں گم ہو چکا ہوں میں

ںہیں معلوم زریون! اب تمہاری عمر کیا ہو گی

مرے خود سے گزرنے کے زمانے سے سوا ہو گی

مرے قامت سے اب قامت تمہارا کچھ فزوں ہو گا

مرا فردا مرے دیروز سے بھی خوش نموں ہو گا

حساب ماہ سال اب تک کبھی رکھا نہیں میں نے

کسی بھی فصل کا اب تک مزہ چکھا نہیں میں نے

میں اپنے آپ میں کب رہ سکا، کب رہ سکا آخر

کبھی اک پل کو بھی اپنے لیے سوچا نہیں میں نے

حسابِ ماہ وسال و روز و شب وہ سوختہ بودش

مسلسل جاں کنی کے حال میں رکھنا بھی تو کیسے

جسے یہ بھی نہ ہو معلوم وہ ہے بھی تو کیونکر ہے

کوئی حالت دلِ پامال میں رکھتا بھی تو کیسے

کوئی نسبت بھی اب تو ذات سے باہر نہیں مری

کوئی بستر نہیں میرا، کوئی چادر نہیں مری

تمہیں اس بات سے مطلب ہی کیا اور آخرش کیوں ہو

کسی سے بھی نہیں مجھ کو گلہ اور آخرش کیوں ہو

جو ہے اک ننگ ہستی اس کو کیا تم جان بھی لو گے

اگر تم دیکھ لو مجھ کو تو کیا پہچان بھی لو گے

تمہیں مجھ سے جو نفرت ہے وہی تو میری راحت ہے

مری جو اذیت ہے وہی تو میری لذت ہے

کہ آخر اس جہاں کا اک نظامِ کار ہے آخر

جزا کا اور سزا کا کوئی تو ہنجار ہے آخر

میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوں

مرے اندر جو ہے اک شخص میں اس میں پھڑکتا ہوں

ہے میری زندگی اب روز و شب یک مجلسِ غم ہا

عزاہا، مرثیہ ہا، گریہ ہا، آشوب ماتم ہا

تمہاری تربیت میں مرا حصہ کم رہا، کم تر

زبان میری تمہارے واسطے شاید کہ مشکل ہو

زباں اپنی زباں میں تم کو آخر کب سکھا پایا

عذاب صد شماتت آخرش مجھ ہی پر نازل ہو

زباں کا کام یوں بھی بات سمجھانا نہیں ہوتا

سمجھ میں کوئی بھی مطلب کبھی آنا نہیں ہوتا

گمانوں کے گماں کی دم بہ دم آشوب کاری ہے

بھلا کیا اعتباری اور کیا نا اعتباری ہے

گماں یہ ہے بھلا میں جز گماں کیا تھا گمانوں میں

سخن ہی کیا فسانوں کا، دھرا کیا ہے فسانوں میں؟

مرا کیا تذکرہ اور واقعی کیا تذکرہ میرا

میں اک افسوس ہوں، افسوس تھا گزرے زمانوں میں

ہے شاید دل میرا بے زخم اور لب پہ نہیں چھالے

میرے سینے میں کب سو زندہ تر داغوں کے ہیں تھالے

مگر دوزخ پگھل جائے جو میرے سانس اپنا لے

تم اپنی مام کے بے حد مرادی منتوں والے

مرے کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں بالے

مگر پہلے کبھی تم سے مرا کچھ سلسلہ تو تھا

گماں میں میرے شاید اک کوئی غنچہ کھلا تو تھا

وہ میری جاودانہ بے دوئی کا اک صلہ تو تھا

سو اس کو ایک ابو نام کا گھوڑا ملا تو تھا

سنو زریون! بس تم ہی سنو، یعنی فقط تم ہی

وہی راحت میں ہے جو عام سے ہونے کو اپنا لے

کبھی کوئی بھی پر ہو کوئی بہمن یار یا زینو

تمہیں بہکا نہ پائے اور بیرونی نہ کر ڈالے

میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر تم سے کہتا ہوں

بہت دکھ دے گی تم میں فکر اور فن کی نمو مجھ میں

ہے تم کو عام شہری دیکھنے کی آرزو مجھ میں

تمہارے واسطے بے حد سہولت چاہتا ہوں میں

دوامِ جہل و حالِ استراحت چاہتا ہوں میں

نہ دیکھو کاش تم وہ خواب جو دیکھا کِیا ہوں میں

وہ سارے خواب تھے قصاب جو دیکھا کِیا ہوں میں

خراشِ دل سے تم بے رشتہ، بے مقدور ہی ٹھیرو

مرے حجیمیمِ ذاتِ ذات سے تم دور ہی ٹھیرو

کوئی زریون، کوئی بھی کلرک اور کوئی کارندہ

کوئی بھی بنک کا افسر، سینٹر اور کوئی پاوندا

ہر اک حیوانِ سرکاری کو ٹٹو جانتا ہوں میں

سو ظاہر ہے، اسے شے سے زیادہ مانتا ہوں میں

تمہیں ہو صبح دم توفیق بس اخبار پڑھنے کی

تمہیں اے کاش بیماری نہ ہو دیوار پڑھنے کی

عجب ہے سارتر اور رسل بھی اخبار پڑھتے تھے

وہ معلومات کے میدان کے شوقین بوڑھے تھے

سنو میری کہانی، پر میاں میری کہانی کیا؟

میں یکسر رائیگانی ہوں حساب رائیگانی کیا؟

بہت کچھ تھا کبھی شاید پر اب کچھ بھی نہیں ہوں میں

نہ اپنا ہم نفس ہوں میں نہ اپنا ہم نشیں ہوں میں

کبھی کی بات ہے فریاد میرا وہ کبھی یعنی

نہیں اس کا کوئی مطلب نہیں اس کے کوئی معنی

میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

میں بے ہنگام لڑکا تھا میں صد ہنگام لڑکا تھا

مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

میں حشر آغاز لڑکا تھا میں حشر انجام لڑکا تھا

مرے ہندو مسلماں سب مجھے سر پہ بٹھاتے تھے

انہی کے فیض سے معنی مجھے معنی سکھاتے تھے

سخن بہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے

وہ کچھ کہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے

میں اشرافِ کمینہ کار کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا

سو میں محنت کشوں کی جوتیاں منبر پہ رکھتا تھا

میں شاید اب نہیں ہوں وہ مگر اب بھی وہی ہوں میں

غضب ہنگامہ پرور خیرہ سر اب بھی وہی ہوں میں

مگر میرا تھا اک طور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا

مگر میرا تھا ایک دور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا

میں اپنے شہر علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہِن

مرے تلمیذ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سِن

مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا

وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پرحالی سکھاتا تھا

وہ ہیت داں وہ عالم ناف شب میں چھت پہ جاتا تھا

رصد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا، نبھاتا تھا

اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرصِ دولت تھی

بڑے سے قطر کی اک دوربین اس کی ضرورت تھی

مری ماں کی تمناؤں کا وہ قاتل تھا وہ قلامہ

مری ماں میری محبوبہ قیامت کی حسینہ تھی

ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہامہ

تھا بے حد اشتعال انگیر بدقمست وہ علامہ

خلف اس کے خزف اور بے نہایت ناخلف نکلے

ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شرف نکلے

میں اس عاکم ترین دہر کی فکرت کا منکر تھا

میں سو فسطائی تھا جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا

پر اب میری یہ شہرت ہے کہ بس اک شرابی ہوں

میں اپنے دودمانِ علم کی خانہ خرابی ہوں

مجھے اس شام ہے اپنے لبوں پر اک سخن لانا

علی درویش تھا تم اس کو اپنا جد نہ بتلانا

وہ سبطین محمد جن کو جانے کیوں بہت ارفع

بہت ارفع بہت اعلیٰ سمجھوایا گیا اب تک

تم ان کی دور کی نسبت سے بھی یکسر مُکر جانا

کہ اس نسبت سے زہر و زخم کو سہنا ضروری ہے

عجب غیرت سے غلطیدہ بخوں رہنا ضروری ہے

وہ شجرہ جو کنانہ، فہر غالب کعب مرہ سے

قصی و ہاشم و شیبہ ابو طالب تک آتا تھا

وہ اک اندوہ تھا تاریخ کا اندوہ سو زندہ

وہ ناموں کا درخت زرد تھا اور اس کی شاخوں کو

کسی تنور کے ہیزم کی خاکستر ہی بننا تھا

اسے شعلہ زدہ بودش کا اک بستر ہی بننا تھا

ہمارا فخر تھا فقر اور دانش اپنی پونجی تھی

نسب ناموں کے ہم نے کتنی ہی پرچم لپیٹے ہیں

مرے ہم شہر زریون اک فسوں ہے نسل ہم دونوں

فقط آدم کے بیٹے ہیں، فقط آدم کے بیٹے ہیں

میں جب اوسان اپنے کھونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں

میں تم کو یاد کر کے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں

ہمیشہ میں خدا حافظ ہمیشہ میں خدا حافظ

خدا حافظ

خدا حافظ


جون ایلیا

No comments:

Post a Comment