اصولِ مئے کشی بدلا، مزاجِ آرزو بدلا
مگر ساقی! نہ تیری انجمن بدلی نہ تُو بدلا
ہم اپنی بزم میں بھی اجنبی معلوم ہوتے ہیں
گِلہ غیروں کا کیا کیجے جب اپنوں کا لہو بدلا
غریبی میں بھی اکثر دیکھنے والوں نے دیکھا ہے
کہ ہم نے جامِ جم سے بھی نہ مٹی کا سبُو بدلا
ترے میخانے میں ہے ظرف والوں کی کمی ساقی
یہاں دو گھونٹ جس نے پی اسی کا رنگِ رُو بدلا
غزل میں شکوہ سنجی اپنی عادت تو نہ تھی عاجز
مگر ہم نے بہ مجبوری طریقِ گفتگو بدلا
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment