Monday, 2 November 2020

مسلسل ایک سجدے کا یہی انعام ہوتا ہے

 کبھی تقدیر گر میری

مجھے رستے میں مل جائے

کبھی بھولے سے ہی گر وہ

مری بستی میں آ جائے

مرے گھر کا پتہ پوچھے

کبھی مجھ سے کہے آ کر

کہ میں تقدیر ہوں تیری

بتا کیا چاہئے تجھ کو؟

خوشی درکار ہے تجھ کو؟

ہنسی درکار ہے تجھ کو؟

وفا درکار ہے تجھ کو؟


کسی بچھڑے ہوئے کا کوئی پتہ درکار ہے تجھ کو؟

بتا تقدیر کی ماری! کہ کیا درکار ہے تجھ کو؟

کبھی تقدیر گر پوچھے تو میں کچھ بھی نہ مانگوں گی

میں اے جانِ جہاں! تقدیر سے تیرا نہ پوچھوں گی

نہ تیرا پیار اور چاہت

نہ جذبوں کی کوئی حدت

نہ ہونٹوں کی کوئی لرزش

نہ ہاتھوں کی کوئی جنبش

نہ خوشبودار سا موسم

نہ زخموں کے لیے مرہم

نہ کوئی امید مانگوں گی

نہ اس سے عید مانگوں گی

نہ میں تیری محبت کی کوئی تجدید مانگوں گی

نہ اس بھولے ہوئے وعدے کی اب تائید مانگوں گی

بس اے جانِ جہاں تقدیر سے میں اتنا پوچھوں گی

رفاقت اور محبت کا

ریاضت اور عبادت کا

یہی انجام ہوتا ہے؟

مسلسل ایک سجدے کا یہی انعام ہوتا ہے؟

کسی کے نام پر کوئی اس طرح بے نام ہوتا ہے؟

مثالِ شام ہوتا ہے؟


نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment