نظر سمیٹیں، بٹور کر انتظار رکھ دیں
جو اس پہ تھا اب تلک ہمیں اعتبار رکھ دیں
بس ایک خواہش مدار تھی اپنی زندگی کا
کسی کے ہاتھوں میں اپنا دار و مدار رکھ دیں
تجھے جکڑ لے کبھی سلیقہ یہی نہیں ہے
ہے جی میں سب نوچ کر نگاہوں کے تار رکھ دیں
بڑی ہی نرمی سے اس کی آنکھیں مصر ہوئی تھیں
ہم اس کے دامن میں اپنا سارا غبار رکھ دیں
کبھی مِری ضد جو کر لے مجھ ہی کو لے کے دم لے
پھر اس کے آگے زمانے بھر کو ہزار رکھ دیں
شمیم عباس
No comments:
Post a Comment