ضرور سب کو بھلا سوگوار کرنا ہے
کہ داستاں کا یہیں اختصار کرنا ہے
تو میرا دوست بھی ہے میرا اک سفینہ بھی
یہ راستہ ہمیں ایک ساتھ پار کرنا ہے
یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے جا کے ساحل پر
کسے اتارنا، کس کو سوار کرنا ہے
ملال ہے مِرے وحشی کو خوش لباسی کا
سو اس لباس کو اب تار تار کرنا ہے
کسی کے سامنے جانے کا ایک مطلب تھا
یونہی نہیں کہ ہمیں چھپ کے وار کرنا ہے
خزاں رُتوں میں اسے یاد ہی نہیں رہتا
بہار رُت میں کسے اختیار کرنا ہے
تمہیں پہنچنے کی عُجلت ہے، تم چلے جاؤ
مجھے کسی کا ابھی انتظار کرنا ہے
شکاری آپ ہی جس کے شکار ہو جائیں
پھر اس غزال کو کس نے شکار کرنا ہے
بدلتی رُت کا تقاضا ہے بس یہی شہزاد
کہ اب کے بار ہمیں کھل کے پیار کرنا ہے
شہزاد بیگ
No comments:
Post a Comment