Tuesday 25 May 2021

اک ویران گلی کے موڑ پہ کالا مندر پیلا گھر

 اک ویران گلی کے موڑ پہ کالا مندر، پیلا گھر

باہر اندر سناٹا ہے، اندر باہر پیلا گھر

خواب نگر سے چلتے چلتے میں کس در پر آ پہنچی

رنگ برنگے دروازے ہیں نیچے اوپر، پیلا گھر

سرد ہوا کی رہداری میں سوکھے پتے اڑتی دُھول

گیٹ کے اندر ویرانی ہے اور بھی اندر پیلا گھر

زرد ورانڈہ، دھوپ سنہری، سائے اُودھے، مٹی لال

پھول کٹیلے، جامن نیلے، پیڑ سے اوپر پیلا گھر

اک دوجے کے شانے پر سر رکھ کر دونوں اُونگھ گئے

گرم سلگتی دوپہروں میں نیلا انبر پیلا گھر

بے شک باغ نہیں ہے اس میں، ڈال تو پھولوں والی ہے

اور بھی رنگ مکانوں کے ہیں، سب سے بہتر پیلا گھر

میں دہلیز سے باہر جا کر اُس کی یاد کو چھوڑ آئی

جا کر واپس آ بیٹھی ہوں گلے لگا کر پیلا گھر

بول سہیلی کیا کہتی ہے چل کھیلیں ہم ریت کے ساتھ

آ مِری مچھلی سُرخ جزیرہ، ہرا سمندر پیلا گھر


رفعت ناہید

No comments:

Post a Comment