غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
میں عالمِ غم اپنا عالم سے نہیں کہتا
پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھ تڑپی ہوئی نظریں
دکھ اپنے میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا
رہگیر ہوں میں ایسا ہر غم سے گزرتا ہے
دعوت پہ جو رندانِ خرم سے نہیں کہتا
موسم ہمہ گردش ہے پس ماندۂ گردش ہے
لب تشنہ کوئی یہ شے کیوں جم سے نہیں کہتا
کسب متحرک سے پا بستہ نسب طغرے
یہ کیا ہے کوئی اہلِ خاتم سے نہیں کہتا
آ داغِ محبت کے سانچے میں تجھے ڈھالوں
خاتم سے میں کہتا ہوں درہم سے نہیں کہتا
کچھ بات تھی کہنے کی کچھ بھول گیا اب میں
فطرت سے نہیں کہتا آدم سے نہیں کہتا
کہتے تو نہیں باور نا کہئے تو کافر تر
کہنے کی قسم مجھ کو میں دم سے نہیں کہتا
کہلانے میں خود ان کا کچھ تکملہ نارس ہے
الٹے انہیں شکوے ہیں کیوں ہم سے نہیں کہتا
ہاں میری یہ الجھن تو ہر دل میں کھٹکتی ہے
کچھ مڑ کے کوئی زلف برہم سے نہیں کہتا
کیوں ہو نہ جنوں کم گو جب ہوتا ہے یہ زیرک
دہرائی ہوئی باتیں محرم سے نہیں کہتا
کہنے سے ہوا گہرا کچھ اور غم پنہاں
میں سائے سے کہتا ہوں ہمدم سے نہیں کہتا
جس لمحے سے دیکھا ہے اک شعر سراپا کو
دانستہ کوئی مصرع اس دم سے نہیں کہتا
دیتے ہیں وہ محفل میں یوں داد لطیفی کو
اشعار یہ کیا اکثر مبہم سے نہیں کہتا
حسن لطیفی
No comments:
Post a Comment