Tuesday 25 May 2021

مدام لے کے مجھے حلقہ وار ناچتی ہے

 مدام لے کے مجھے حلقہ وار ناچتی ہے

جدھر چلوں نگہِ طرحدار ناچتی ہے

ملا ہے وعدۂ فردا بجائے نقد وصال

ہماری روح کو دیکھو اُدھار ناچتی ہے

یہ کس نظر نے طلسمِ خزاں کو کاٹ دیا

پلک جھپکتے میں ہر سُو بہار ناچتی ہے

پھرے ملول وہ درگاہ کے احاطے میں

اور آئے وجد میں تو بے شمار ناچتی ہے

پٹخ کے سر کبھی روتا ہے ہجر کا آزار

امیدِ وصل کبھی بار بار ناچتی ہے

وحی نہیں اسے درکار اذنِ خاکی تھا

جو مل گیا تو یہ مُشتِ غبار ناچتی ہے

ہماری روح تبسم سخن کی ہے جوگن

غزل کے گر کہیں چھڑ جائیں تار ناچتی ہے


تبسم انوار

No comments:

Post a Comment