وہ مجھے جانتا ہے
مظاہر فطرت میں چھپا بیٹھا ہے
اجرامِ فلکی کے جلو میں
دلوں کے اندر
معلوم، نامعلوم وُسعتوں میں
سمندر کی تہہ میں رہتا ہے
نجانے کہاں ہے
یہیں کہیں ہے
میرے آس پاس کے یقین میں
ناممکنات کی طنابیں
لفظ کُن فیکوں تک آتے آتے
معدوم ہو جاتی ہیں
وہ میری آواز سنتا ہے
مجھے جانتا ہے
امجد بابر
No comments:
Post a Comment