تیری ڈگر کو، میں اپنی نظر میں رکھتی ہوں
ہزار پھول تیری راہ گزر میں رکھتی ہوں
میں تیری یاد کو آنچل میں باندھ لائی ہوں
تِرے خیال کو زادِ سفر میں رکھتی ہوں
تُو ایک پل بھی جدا مجھ سے ہو نہیں سکتا
میں تیری یاد کو شام و سحر میں رکھتی ہوں
مِری وفاؤں کی گرمی سے تُو بھی پگھلے گا
اک ایسا شعلہ میں اپنے جگر میں رکھتی ہوں
مجھے ڈرائے گا کیسے یہ پانیوں کا مزاج
میں اپنی کشتی ہمیشہ بھنور میں رکھتی ہوں
تلاش کرتے ہو تم مجھ کو چاند کے اندر
میں اپنے چہرے کا پرتو قمر میں رکھتی ہوں
ارمؔ نے شعروں سے سب کو اسیر ایسے کیا
کہ جیسے جادو میں اپنے ہنر میں رکھتی ہوں
ارم زہرا
No comments:
Post a Comment