Tuesday 25 May 2021

نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے

 خوف 


نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے

خواب دیکھا تو پھر

آس لگ جائے گی

آس ٹوٹی تو آنکھوں میں

چُبھتی ہوئی کرچیاں

خوں رُلائیں گی

آنکھوں کو بے نور کر جائیں گی

خوش گُمانی کی

اُڑتی ہوئی تتلیاں

رنگ کھو دیں گی

بے موت مر جائیں گی

اِس لیے نیند سے میری بنتی نہیں

آنکھ لگتی نہیں

خواب کے خوف سے

بھُول کر بھی میں پلکیں

جھپکتی نہیں


فرزانہ ناز

No comments:

Post a Comment