خوف
نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے
خواب دیکھا تو پھر
آس لگ جائے گی
آس ٹوٹی تو آنکھوں میں
چُبھتی ہوئی کرچیاں
خوں رُلائیں گی
آنکھوں کو بے نور کر جائیں گی
خوش گُمانی کی
اُڑتی ہوئی تتلیاں
رنگ کھو دیں گی
بے موت مر جائیں گی
اِس لیے نیند سے میری بنتی نہیں
آنکھ لگتی نہیں
خواب کے خوف سے
بھُول کر بھی میں پلکیں
جھپکتی نہیں
فرزانہ ناز
No comments:
Post a Comment