Tuesday 25 May 2021

اس جہاں پہ حال دل آشکار کرنا ہے

 اس جہاں پہ حال دل آشکار کرنا ہے 

آج ایک حاسد کو رازدار کرنا ہے 

کرنے ہیں گلے اس سے رنجشیں بھی رکھنی ہیں 

پیار بھی ستم گر کو بے شمار کرنا ہے 

موسم یقیں میں جو بد گمان رہتا ہے 

اس سے پیار کا رشتہ استوار کرنا ہے

 جانے والے آخر کو لوٹ کر بھی آتے ہیں 

ہم نے حشر تک اس کا انتظار کرنا ہے 

سامنے رہو میرے یا نگاہ سے اوجھل 

شام غم تجھے میں نے اشک بار کرنا ہے 

اصل میں محبت کی صورتیں یہی دو ہیں 

بے قرار ہونا ہے بے قرار کرنا ہے 


صغرا صدف

صغریٰ صدف

No comments:

Post a Comment