اس جہاں پہ حال دل آشکار کرنا ہے
آج ایک حاسد کو رازدار کرنا ہے
کرنے ہیں گلے اس سے رنجشیں بھی رکھنی ہیں
پیار بھی ستم گر کو بے شمار کرنا ہے
موسم یقیں میں جو بد گمان رہتا ہے
اس سے پیار کا رشتہ استوار کرنا ہے
جانے والے آخر کو لوٹ کر بھی آتے ہیں
ہم نے حشر تک اس کا انتظار کرنا ہے
سامنے رہو میرے یا نگاہ سے اوجھل
شام غم تجھے میں نے اشک بار کرنا ہے
اصل میں محبت کی صورتیں یہی دو ہیں
بے قرار ہونا ہے بے قرار کرنا ہے
صغرا صدف
صغریٰ صدف
No comments:
Post a Comment