Thursday, 27 May 2021

یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے

 یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے

مِرے شہر کی یہ فضا کس لیے ہے

بتا زندہ در گور ہے آدمی کیوں

بتا آسماں پر خدا کس لیے ہے

ہیں مسئلے ہوئے شاخ در شاخ گل کیوں

چمن در چمن سانحہ کس لیے ہے

اکیلا دیا رہ گزر کا بجھا کر

پشیماں بہت اب ہوا کس لیے ہے

جو تم سامنے آئے تو میں نے جانا

کہ منظر نے بدلی قبا کس لیے ہے

نہ تزئینِ گل ہے نہ پیغامِ خوشبو

گلستاں میں چلتی صبا کس لیے ہے

مجھے زندگی میں دیا تھا جہنم

تو اب روزِ محشر سزا کس لیے ہے

یہ طے ہے یہاں کوئی در کب کھلے گا

اے درویش دیتا دعا کس لیے ہے

مرے چارہ گر تُو نے وعدہ کیا تھا

تو پھر دل کا گھاؤ بھرا کس لیے ہے

بہ نامِ سزا جب ملا ہے یہ جیون

تو جینے میں اتنا مزا کس لیے ہے

کسی کی بھی جب منتظر میں نہیں ہوں

تو در میرا آخر کھلا کس لیے ہے

دعاؤں میں میری اثر آ گیا کیا

وہ یوں جاتے جاتے رکا کس لیے ہے

تبسم ہو کیسے یہ عقدہ کشائی

بقا کس کی خاطر فنا کس لیے ہے


تبسم انوار

No comments:

Post a Comment