دعائے نیم شبی
خداوندِ عالم
میں آدم کے بیٹے کی بھولی نماز اور نسیان موسم میں دھندلی پڑی
اک دُعا مانگتی ہوں
شفا میں ڈھلے سجدۂ بندگی کی نمو کر عطا
لاشریک لہ کا جنوں میری چاہت
میں تاریک راتوں میں ذوقِ ضیائے دروں مانگتی ہوں
تری آگہی کا وضو میری اُلفت
میں حسنِ حضوری میں ڈوبی ہوئی گفتگو چاہتی ہوں
کہاں تک چلوں میں کہ سچ کی تڑپ
آگہی کی خبر
شاخِ احساس کی تازگی مانگتی ہے
میں کہ تاثیرِ روح کی طلبگار ہوں
مجھ کو تعبیرِ علم مبیں کر عطا
مجھ کو سوزِ نوا کا کوئی ذوق دے
مجھ کو ایقانِ حق سے صبا کار رکھ
دشت کی بادِ مغموم سے دے نجات
مجھ کو گھیرے ہوئے ہے فریبی گلاب
یہ طلسمات کی امر بیلی ہٹا
کاٹ دے پھینک دے
یہ بلا کب تلک
میرے سبزے کی حاکم رہے
اے خدا
اے مری پتلیوں کے نشیمن کی ضو
ذات کا بھید ہے کہ کسی دلدلی سرزمیں کا سفر
وہم ہی وہم ہے ، ریب ہی ریب ہے
بادِ شرار ہے، زہر کا کھیل ہے
بے کلی بے کلی۔۔۔ چار جانب بھٹکتی ہوئی بے کلی
میری نس نس میں پھیلی ہوئی خوف کی دھاندلی
چار سو جسمِ عیار کا رقص ہے
اے خدا
ذات کے بھید کو
مجھ سے بندۂ ناچیز کے واسطے
کشف کا عکس کر
میں بشر ہوں تو تیرے قرینے سے ہوں
تو اگر ساتھ ہے
میں سفینے سے ہوں
اپنے جینے سے ہوں
اور معراج کی اور جاتے ہوئے
تیرے زینے سے ہوں
عظمیٰ نقوی
No comments:
Post a Comment