میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے
اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں جو یہ معجزۂ عشق لیے پھرتا ہوں
ایک جگنو بھی ستارہ نہیں ہوتا مجھ سے
گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے
اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں ہوں دہلیز پہ رکھے ہوے پتھر کی طرح
اب محبت میں گزارہ نہیں ہوتا مجھ سے
کام جتنے بھی کیے سارے ادھورے ہی رہے
اور یہ عشق بھی سارا نہیں ہوتا مجھ سے
کیا کہا عشق کروں، وہ بھی نئے جذبے سے
جی نہیں اب یہ دوبارہ نہیں ہوتا مجھ سے
صرف لے دے کے صفی سانس بچا رکھی ہے
اب کوئی اور خسارہ نہیں ہوتا مجھ سے
افضل صفی
No comments:
Post a Comment